کسی دوسرے انسان کو ڈیل کرنا سب سے زیادہ ٹیکنیکل کام ہے اگرسمجھا جائے اور غور کیا جائے تو ۔۔۔۔ کیونکہ ہر انسان حقائق کی جستجو میں ہوتا ہے اور آسانی سے دوسرے سے قائل نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ ہر شخص کو پرکھتے ہیں کہ یہ کس طبیعت کا مالک ہے
انسان کو ایک سوشل انیمل کہا جاتا ہے کیونکہ اسے معاشرے میں رہنے کیلئے بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے اور زندگی گزارنے کیلئے معاشرے کی ضرورت پڑتی ہے کوئی بھی شخص اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا۔ معاشرتی مطابقت اسی لیے اختیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور انسان کو اپنے اردگرد کے ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے اور اسی لیے وہ معاشرے میں رہنے کیلئے سیکھتا ہے۔ لہٰذا لرننگ یعنی آموزش ایک ایسا عمل ہے جو کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے اور تمام عمر چلتا رہتا ہے۔ آموزش کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں‘ انسان ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے مگربعض اوقات میں اس کا شعور ہوتا ہے اور بعض اوقات نہیں ہوتا۔ آموزش فارسی زبان کالفظ جو آموفتن سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے یاد کرنا اور اس کا تعلق میموری سےہے۔
سبق یاد کرنا ایک ایسا کام ہے جسے سنتے ہی کچھ بچے اُف … بے اختیار کہہ دیتے ہیں۔ اوہو …اف …یہ وہ الفاظ ہیں جو بچے اکتاہٹ سے بولتے ہیں …کہ ابھی تو ہوم ورک بھی کرنا ہے اور پھر سبق بھی یاد کرو …‘ آخر ہم کھیلیں گے کب…؟؟؟ صبح سکول جائیں‘ پھر ٹیوشن جائیں‘ پھر گھر آکر سبق یاد کریں۔ ہماری تو زندگی میں کوئی لطف ہی نہیں وغیرہ وغیرہ … اگر فرض کرلیاجائے کہ یہ باتیں نہیں ہیں تو پھر اردگرد کی ہر وقت کی نصیحت بچوں میں دلچسپی کو ختم کردیتی ہیں جیسے کہ انہیں ہر وقت کہنا کہ سبق یاد کرو‘ آپ کا فلاں کزن تو بہت لائق ہے تم بھی اس جیسے بنو… یہ باتیں ہر وقت یا ہر روز سننے سےبچے سبق پڑھنے سے پہلے ہی اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں اور سبق میں دلچسپی لینے کی بجائے اسے خانہ پوری سمجھنے لگتے ہیں۔
والدین اپنی جگہ درست ہوتے ہیں مگر بچے بھی اپنی جگہ درست ہوتے ہیں تو ایسے میں وقت کی ترتیب بہت ضروری ہوتی ہے۔ مگر آج کل ہر شخص اتنا مصروف ہے کہ ہر کسی کو اپنا کام مشکل اوربڑا اور دوسرے کا کام آسان اور چھوٹا لگتا ہے۔ والدین کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بچے کے ذہن میں کیا کیا باتیں چل رہی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کے دوست بنیں تاکہ بچے انہیں اپنی ہر بات بلاجھجک بتادیں اور بچوں کو یہ مت کہیں کہ ‘‘توبہ ہے تم تو ہروقت بولتے رہتے ہو‘‘ اس طرح بچے کی خوشی غم میں بدل جاتی ہے اور بچہ بھی بات کرنے سےسہم جاتا ہے۔ پھر اس کا یہ سہم جانا اس کی سوشل لائف‘ سکول لائف اور سٹڈی لائف کو بہت متاثر کرتا ہے۔
کسی دوسرے انسان کو ڈیل کرنا سب سے زیادہ ٹیکنیکل کام ہے اگرسمجھا جائے اور غور کیا جائے تو … کیونکہ ہر انسان حقائق کی جستجو میں ہوتا ہے اور آسانی سے دوسرے سے قائل نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ ہر شخص کو پرکھتے ہیں کہ یہ کس طبیعت کا مالک ہے اور اسے کتنی جلدی غصہ آتا ہے یا اس کے پاس کتناعلم ہے وغیرہ وغیرہ… ٹیچرز کو بھی طالب علموں کو ڈیل کرنا ہوتا ہے اور استاد کی شخصیت شاگرد پر بہت اثرانداز ہوتی ہے۔ بعض بچے اپنے استاد محترم سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ بالکل ہوبہو ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
آخر سبق کو یاد کرنا مشکل کیوں ہوتا ہے۔۔۔؟ اس کی کچھ وجوہات ہیں بعض بہت ہی معمولی ہیں مگر وہ بنیادی وجہ بن جاتی ہیں جیسے کہ:۔ اگر شاگرد کو اس بات کا علم نہ ہو کہ نصاب کتنا ہے اور یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب وہ باقاعدگی سےسکول نہ آئے۔2۔ سکول کالج میں دیر سے آنا‘ دیر سے آنے سے آپ لیکچر کا کچھ حصہ سمجھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ وہی سب سے اہم پوائنٹ ہو۔ 3۔ استاد صاحب کی طرف توجہ نہ دینا اور دوستوں کیساتھ باتوں میں مشغول رہنا۔ 4۔جو بات مشکل ہو اسے پوچھنے سے کترانا کہ میرے باقی ہم جماعت اور استادکیا گمان کریں گے۔ 5۔ لیکچر کے اہم نکات کو نوٹ کرنے کی بجائے کتاب کا صفحہ نمبر اور پیراگراف ہی ڈھونڈتے رہنا وغیرہ وغیرہ
یہ وہ تمام باتیں ہیں جو کہ سبق کو یاد نہ ہونے کی سب سے پہلی وجہ بنتی ہیں اور اس طرح سبق کی دلچسپی برقرار نہیں رہتی اور نتیجۃً بچے رٹا لگانے کو ترجیح دیتے ہیں دراصل طالبعلموں کو خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ وجہ ہے۔ وہ ان سب باتوں کو بہت معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ تمام کام وہ ہیں جو بچے کی پوری توجہ پڑھائی کی طرف راغب نہیں ہونے دیتے۔
ایک سادہ سی مثال ہے کہ ہم کوئی بھی کہانی دلچسپی سے پڑھیں یا کوئی ٹی وی پروگرام دیکھیں تو ہمیں وہ یاد رہتا ہے اور بچوں کو بھی وہ یاد رہتا ہے کیوں …؟؟؟ صرف ایک بار دیکھنے‘ پڑھنے اور سننے سے …؟؟؟ نہیں بلکہ اس کی وجہ ’’توجہ‘‘ ہے صرف توجہ …اگر ہم توجہ سے کہانی نہ پڑھیں تو وہ بھی ہمیں سمجھ نہیں آئے گی۔ لہٰذا کسی بھی کام کو کرنے کیلئے توجہ اور دلچسپی بہت ضروری ہے۔
اب یہ سوال ہوتا ہے کہ اگر ان تمام طریقوں پر عمل کرلیا جائے تو کیا پھر بھی اس کے علاوہ کوئی اور آسان طریقہ ہے … سبق یاد کرنے کا‘ جی ہاں بالکل ہے اور وہ یہ ہے:۔
1۔ سب سے پہلے دئیے ہوئے سبق کو دو سے تین مرتبہ پڑھیں اور یہ سمجھیں کہ کوئی دلچسپ بات آپ کو بتائی جارہی ہے۔2۔ اس سبق کی اہم باتیں نوٹ کرلیں۔ قلم سے کتاب پر ان اہم الفاظ کو خط کشیدہ کرلیں۔3۔ اب جو نکات سمجھ نہیں آتے انہیں دوبارہ پڑھیں اگر پھر بھی سمجھ نہ آئیں تو انہیں نوٹ کرلیں۔4۔ ہر پوائنٹ کی اہم بات جو کہ مرکزی بات ہو اسے ذہن نشین کرلیں۔ 5۔ سبق یاد کرنے کیلئے ایسوسی ایشن کا طریقہ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو تاریخ یاد نہ ہو تو وہ تاریخوں کو کسی واقعہ کے ساتھ منسلک کرکے یاد کرے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا سن وفات بھول جاتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اس طرح یاد کرے کہ پاکستان 1947ء میں بنا اور پاکستان کے بننے کے گیارہ سال قبل علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ وفات پاگئے تھے توپاکستان کے قیام سے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے سن وفات کے درمیان ایک تعلق بنا دیا اور اس طرح یہ آسانی سے یاد ہوجائے گا۔6۔اسی طرح جگہوں اور موقعوں کی مطابقت سے بھی سبق کو یاد کرسکتے ہیں۔ 7۔ لیکچر کی اہم باتوں کو ضرور نوٹ کرلیں اور سبق یاد کرنے سے پہلے وہ پڑھ لیں۔ 8۔ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اگر پوائنٹ یا کوئی لفظ بہت بڑا ہے تو اس کے اجزاء کرلیں اور ایک بامعنی لفظ بنا کر اسے یاد کرلیں جیسا کہ Wapda, News, PIA وغیرہ۔ 9۔ سبق یاد کرتے ہوئے کوئی بھی دوسری بات ذہن میں نہ لائیں اور توجہ اپنے سبق کی طرف دیں۔ 10۔ جب ایک سبق یاد ہوجائے تو پانچ منٹ کا وقفہ ضرور لیں اور پھر دوسرا سبق یاد کریں۔ 11۔ سبق کو یاد کرنے کے بعد ایک مرتبہ اس کی زبانی مشق ضرور کرلیں اور پھر خود چیک کریں کہ کیا غلطیاں ہیں اور کہاں کہاں مزید محنت درکار ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں